راہِ ہدایت
اورہم نے ان کے دلوں کو مربوط کردیا تھا جب وہ کھڑے ہوئے توکہنے لگے کہ ہمارا پروردگار تووہی ہے جوآسمانوں اورزمین کا مالک ہے ۔ (سورۃ الکہف :آیت14)

پی ٹی آئی اور جے یو آئی کا مشترکہ طور پر آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کرنیکا فیصلہ


اسلام آباد: (دنیا نیوز) پی ٹی آئی اور جے یو آئی ف کے درمیان ملاقات میں اہم پیش رفت سامنے آگئی، دونوں جماعتوں نے مشترکہ طور پر آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔



اشتہار

اسلام آباد(مدثرعلی رانا) آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ نے جائزہ مشن اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے سٹاف سطح کے معاہدے اور پاکستان کیلئے 7 ارب ڈالر قرض پیکیج کی منظوری دے دی، ایگزیکٹو بورڈ نے 1.1 ارب ڈالر کی پہلی قسط کے اجرا کی بھی منظوری دی جو 2 سے 3 روز میں پاکستان کو موصول ہو جائے گی۔

فیصل آباد ،لاہور (خصوصی رپورٹر،اے پی پی،دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے فیصل آبادیونیورسٹی آف ایگریکلچر میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ایگریکلچر گریجویٹ انٹرن شپ پروگرام لانچ کردیا۔ایک ہزار ایگریکلچر گریجو یٹس کو ماہانہ 60ہزار روپے سکالر شپ دیا جائے گا۔

اسلام آباد(اپنے نامہ نگارسے )سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی بی 14نصیرآباد میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور انتخابی دھاندلی کے معاملے پر تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک)امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ افغان طالبان کو چاہیے کہ اپنی سرزمین کو دہشتگردی کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں اور بدامنی کی فضا کو روکیں۔

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک)سربراہ جے یوآئی مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ خواہش ہے کہ آئینی ترامیم اتفاق رائے سے منظور ہوں ، کسی شخص کے لئے ترمیم کے حق میں نہیں ۔

لاہور(دنیا نیوز)وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے بیان پر تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے اپنے رد عمل میں کہا کہ پنجاب میں جلسہ جلوس اگر دہشت گردی ہے تو یہ دہشت گردی ہم کرتے رہیں گے۔

مری(نمائندہ دنیا) کنوینرعوام پاکستان پارٹی شاہدخاقان نے کہا ہے کہ ملک اس وقت سیاسی عدم استحکام و انتشار کا شکار ہے فوج سیاست دان اورعدلیہ تینوں جب تک ایک پیج پر نہیں ہونگے اس وقت تک ملک کے حالات بہتر نہیں ہونگے ، چیف جسٹس کو اپنا ٹائم پورا کرکے رخصت ہو جانا چاہیے ۔

راولپنڈی (خبر نگا ر سے )بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہاہے کہ جلسہ لیاقت باغ میں ہی ہو گا ۔ اجازت نہ ملی تو احتجاج ہو گا۔ وکلا تحریک کی مکمل حمایت کرتے ہیں ۔ ملک بھر میں احتجاج کا لائحہ عمل ترتیب دیدیا ہے ،پی ٹی آ ئی کے ڈر سے سپریم کورٹ اور جمہوریت کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔

متفرقات

یادرفتگاں:رہنمائوں کے رہنما بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان

یادرفتگاں:رہنمائوں کے رہنما بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان

جمہوریت کیلئے نوابزادہ نصر اللہ خان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ ان چند سیاست دانوں میں سے ہیں جو حقیقی معنوں میں کسی بھی دور میں نہ بکے اور نہ جھکے۔ 1951ء کے بعد ملک میں جتنے بھی سیاسی اتحاد بنے نوابزادہ نصراللہ خان کا ان کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ضرور رہا۔انہیں سب سے زیادہ شہرت ایوب خان کے دور میں اس وقت ملی جب انہوں نے جمہوریت کی بحالی کیلئے قربانیاں دیں اور ان پر بغاوت کا مقدمہ بنا۔ اس وقت جب دوسرے سیاستدان ہمت ہار بیٹھے تھے یہ مردِ قلندر میدان عمل میں ڈٹا رہا اور ایوب خان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کرے۔ یہی صورتحال ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی رہی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے مستقل مزاجی سے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے احتجاجی تحریک جاری رکھی۔ قائد جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 21 سال بِیت چکے ہیں اور ان کی برسی کل منائی جائے گی۔نوابزادہ نصر اللہ خان13 نومبر 1916ء کو مظفرگڑھ کے قصبے خان گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نوابزادہ سیف اللہ خان دفعہ 30 کے مجسٹریٹ تھے۔ نصراللہ خان ابھی چھ برس ہی کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ انہوں نے ایچیسن کالج لاہورسے ایف اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایمرسن کالج ملتان میں گریجوئشن کیلئے داخلہ لیا لیکن شادی کے باعث انہیں کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔وہ شعبہ صحافت سے بھی وابستہ رہے۔ سیاست انہوں نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے شروع کی۔وہ اس جماعت میں اس طرح رچ بس گئے کہ قیام پاکستان سے قبل 27 یا 28 سال کی عمر میں ہی وہ اس کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ 1950ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بعدازاں اختلافات کی بنا پر مسلم لیگ سے استعفی دے دیا اور حسین شہید سہروردی کے ساتھ مل کر عوامی لیگ قائم کی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان 1962ء میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور انہوں نے 1962ء میں ہی حزب اختلاف کا اتحاد ''نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ‘‘ تشکیل دے دیا۔ 1964ء میں متحدہ حزب اختلاف( سی او پی) کے نام سے ایک تیسرا بڑا سیاسی اتحاد معرض وجود میںآیا۔ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا یہ دوسرا بڑا اتحاد تھا جس کے قیام کا موقع ایوب خان نے صدارتی انتخاب کا اعلان کر کے فراہم کیا تھا۔ تمام اپوزیشن جماعتوں بشمول کونسل مسلم لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی اور عوامی لیگ نے محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا متفقہ صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ ابتدا میں سی او پی کے رہنما ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار کھڑا کرنے کے معاملے میں اختلافات کا شکار ہو گئے تا ہم فاطمہ جنا ح کے نام پر کسی کو اعتراض نہ ہوا۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے محترمہ فاطمہ جنا ح سے ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑنے کی درخواست کی۔ پہلے انہوں نے انکار کیا مگر بعد ازاں انہوں نے آمادگی ظاہر کر دی۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے فاطمہ جنا ح کی صدارتی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا ۔ سی او پی کو قوی یقین تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح الیکشن جیت جائیں گی۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ کو شکست ہوگی۔ نواب زادہ نصراللہ خان نے ایوب خان کے خلاف 1967ء میں حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ''پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ تشکیل دیا۔ انہوں نے ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو ،جنرل ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف حزب اختلاف کا کردار ادا کیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کو اپنی سیاسی زندگی میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں ،کئی مرتبہ جیلوں میں گئے اور متعدد بار نظر بند رہے۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا ء کے دوران اپنے آبائی گھر خان گڑھ میں نظر بند ہونے کے باوجود ملکی سیاسی صورتحال پر پوری طرح نظر رکھے رہتے۔ وہ وقتاً فوقتاً قلبی واردات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرکے نظم کی صورت میں کسی نہ کسی طریقے سے اپنے 50 سالہ پرانے رفیق عبدالرشید قریشی ایڈووکیٹ کے نام بھجوا دیتے، جو اس کی نقول مختلف اخبارات کو جاری کر دیتے ۔ جنرل ضیاالحق کے عہد مارشل لاء میں جس نظم کے چرچے ہوئے اور ملک بھر میں اس کی فوٹو کاپیاں تقسیم کی گئیں وہ یہ ہے۔کتنے بے درد ہیں کہ صر صر کو صبا کہتے ہیںکیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیاء کہتے ہیںجبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیںمیری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں غم نہیں گر لبِ اظہار پر پابندی ہے خامشی کو بھی اک طرز نوا کہتے ہیںکشتگانِ وجور کو بھی دیکھ تو لیںاہل ِدانش جو جفاؤں کو وفا کہتے ہیںکل بھی حق بات جو کہنی تھی سرِ دار کہی آج بھی پیش بتاں نامِ خدا کہتے ہیں یوں تو محفل سے تیری اٹھ گئے سب دل والےایک دیوانہ تھا وہ بھی نہ رہا ، کہتے ہیں یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہےچارہ گر موت کو تکمیل شفا کہتے ہیں بزمِ زنداں میں ہوا شور سلاسل برپادہر والے اسے پائل کی صدا کہتے ہیںآندھیاں میرے نشیمن کو اُڑانے اٹھیں میرے گھر آئے گا طوفانِ بلا ، کہتے ہیںان کے ہاتھوں پر اگر خون کے چھینٹے دیکھیں مصلحت کش اِسے رنگ ِحنا کہتے ہیںمیری فریاد کو اس عہدِ ہوس میں ناصر ایک مجذوب کی بے وقت صدا کہتے ہیں نوابز ادہ نصر اللہ خان نے 1988ء اور 1993ء کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا۔انہوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش18 سیاسی اتحاد بنائے، جن میں پاکستان قومی اتحاد، ایم آر ڈی ،این ڈی اے ،اے آر ڈی ،اے پی سی اور دیگر سیاسی اتحاد شامل ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے اے آر ڈی کے نام سے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جس میں بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی اور میاں نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کو ایک فورم پر جمع کیا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان پیرانہ سالی اور علا لتوں کے دور سے گزر رہے تھے اس کے باوجود انتقال سے کچھ دن پہلے انہوں نے بیرون ملک دورہ کیا۔بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو وطن واپس آنے کی ترغیب دی۔ اس سفر میں انہیں عمرہ اداکرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان مسلح افواج کے سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ کسی بھی آئینی کردار کے خلاف تھے۔ ان کی جمہوریت کے فروغ کیلئے خدمات قابل تحسین ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ نوابزادہ نصر اللہ خان کی بحالی جمہوریت کیلئے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں ا نہیں ''بحالی جمہوریت کا ہیرو ‘‘ قرار دے۔26اور27 ستمبر2003ء کی درمیانی رات وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔انہیں ان کے آبائی قبرستان خان گڑھ میں سپرد خاک کیا گیا۔اس وقت ملک میں جو سیاسی افرا تفری پھیلی ہوئی ہے،ان حالات میں اگر وہ زندہ ہوتے تو ملک میں سیاسی امن و امان قائم کرنے کیلئے ضرور اپنا کردار ادا کرتے۔ 

آئس کریم کی کہانی، کتنی پرانی؟

آئس کریم کی کہانی، کتنی پرانی؟

کون ہے جسے آئس کریم کھانا اچھا نہ لگتا ہو۔ گرمیوں کی چلچلاتی شام میں تو اس کے کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ آئس کریم کو قدیم زمانے سے ہی لوگ بڑے شوق سے کھاتے آ رہے ہیں۔آئس کریم کی شروعات کہاں سے اور کب ہوئی؟ اس سلسلے میں مختلف آراء ہیں۔ عام خیال یہی ہے کہ اس کی شروعات چارہزارقبل مسیح برفیلے علاقوں سے ہوئی۔ جہاں باہر رکھا ہوا دودھ خود بخود جم جاتا تھا اور لوگ اسے پینے کے بجائے کھایا کرتے تھے۔ شاید دنیا کی سب سے قدیم آئس کریم یہی تھی۔ ایک ہزار سال پہلے چینی تاریخ میں آئس کریم کا ذکر ملتا ہے۔ روم کا شہنشاہ دودھ، شہد اور پھلوں کے جوس کو ایک پیالے میں ملا کر برف کی سلوں کے درمیان رکھوا دیتا اور کچھ گھنٹوں بعد جمی ہوئی آئس کریم سے لطف اٹھاتا تھا۔ تاریخ میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ سکندر اعظم کو بھی جمی ہوئی میٹھی چیزیں کھانے کا شوقین تھا۔ عرب کے حکمرانوں کو بھی ٹھنڈی بالائی بے حد پسند تھی۔ تیرہویں صدی میں جب مارکو پولو چین پہنچا تو اس نے وہاں کے شہنشاہ اور دوسرے رئیس لوگوں کوآئس کریم کھاتے دیکھا، اسے بھی یہ چیز پسند آئی۔ مارکو پولو نے فرانس پہنچنے پر وہاں کے شہنشاہ کوآئس کریم کھلائی۔ صنعتی طور پر برف کا استعمال سب سے پہلے انگریزوں نے کیا۔ 1806ء میں تقریباً125ٹن برف لندن سے ویسٹ انڈیز پہنچائی گئی، جہاں اس وقت تک کسی نے برف کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے باشندوں نے برف خریدی ہی نہیں لیکن آہستہ آہستہ برف عام ہو گئی۔1850ء میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ پچاس ہزار ٹن برف دنیا کی 35 بندرگاہوں میں پہنچنے لگی۔ہندوستان میں مغل بادشاہوں کو بھی آئس کریم کھانے کا بے حد شوق تھا۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ بادشاہ بابر، ہمایوں، اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں آئس کریم( جو اس وقت قلفی کے طور پر تیار کی جاتی تھی) کھانے کے بے حد شوقین تھے۔اکبر بادشاہ کے دور کی مشہور کتاب ''آئین اکبری‘‘ میں ایک واقعہ کا ذکر ہے جو آئس کریم سے متعلق ہے۔ بیان کے مطابق 1586ء میں اکبر بادشاہ کے دور میں لاہور سے تقریباً180کلو میٹر دور کسی برفیلے پہاڑی علاقے سے برف منگوائی جاتی تھی۔ اس برف کو توڑ کر نمک ملانے کے بعد آئس کریم بنانے کا محلول تیار کیا جاتا تھا۔ پھر اس میں دودھ اور میوے ملائے جاتے تھے اور قفلی نامی برتن میں رکھ کر برف میں دبا دیا جاتا تھا۔ قفلی برتن ایک خاص دھات کا بنا ہوا ہوتا تھا اور خاص طور پر اسی کام کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ قفلی بگڑ کر قلفی میں بدل گیا اور تیاری کے طریقے میں بھی تبدیلی آ گئی۔اٹھارویں صدی کے آ خر میں امریکہ کے بازاروں میں آئس کریم کی فروخت شروع ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برف جمی ہوئی ندیوں اور جھیلوں سے کاٹ کر لائی جاتی تھی۔ اس طرح برف کے لانے میں اور اسے محفوظ کرنے میں کافی وقت لگتا تھا۔ اس سے آئس کریم بہت مہنگی پڑتی تھی اور اسے امیر لوگ ہی کھاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ایک غریب بچہ جیکب پارکس جب آئس کریم نہ کھا سکا تو اس نے برف بنانے کی مشین بنانے کا تہیہ کیا۔ اس نے بڑے ہو کر مسلسل بیس سال تک محنت کرنے کے بعد برف تیار کرنے کی مشین ایجاد کرلی۔ اس مشین میں ایتھر کا استعمال ہوتا تھاجو پانی کے درجہ حرارت کو کم کرتا ہے اور درجہ حرارت کم ہوتے ہوتے پانی برف بن جاتاتھا۔ اس طرح مصنوعی برف کی تیاری نے آئس کریم کی صنعت میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ ہندوستان میں بھی 19ویں صدی کے آخر میں برف بنانے کے کارخانے کھلنے لگے اور اس کی فروخت عام ہونے لگی۔ 2021ء میں لندن کے ادارہ نفسیات کی ایک تحقیق میں سامنے آیا کہ آئس کریم کا صرف ایک چمچ کھانے سے ہمارے دماغ کاوہ حصہ جو فیصلہ سازی میں ہماری مدد کرتا ہے، متحرک ہو جاتا ہے۔دیگر تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ آئس کریم میں موجود پروٹین اور چکنائی ہمارا موڈ بہتر کر دیتے ہیں اور ہمارے جسم میں موجود سیروٹونن (وہ ہارمون جس سے موڈ اچھا ہو جاتا ہے) کی سطح بھی بڑھ جاتی ہے۔معیاری آئس کریم میں پروٹین اور چکنائی کی مقدار ویسے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ آئس کریم بچے ہی نہیں بڑے بھی پسند کرتے ہیں۔ کھانے کی چیزوں میں یہ سب سے زیادہ مشہور چیزوں میں گنی جاتی ہے۔اس کا زیادہ استعمال نقصان دہ ہے۔بزنس انٹیلی جنس پلیٹ فارم 'سٹیٹسٹا‘ کے مطابق 2024ء میں آئس کریم کی صنعت سے 103.4 ارب ڈالر حاصل ہوئے۔ اس کے مقابلے میں چاکلیٹ کے کاروبار سے آنے والی آمدنی 1.33 ارب ڈالر ہے جبکہ کافی کی صنعت سے 93.46 ارب ڈالرآئے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ آئس کریم کے مختلف ذائقوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور بات اب روایتی ونیلا اور چاکلیٹ آئس کریم سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی ہے۔ کچھ آئس کریم کے ذائقے مقامی کھانوں کی ثقافت سے بھی مشابہت رکھتے ہیں۔2022 میں جنوبی افریقہ کے دارالحکومت کیپ ٹائون میں کچن چلانے والے ٹاپیوا گزہا کا سوشل میڈیا پر چرچہ ہوا جب انھوں نے سوکھی نمکین مچھلی کے ذائقے والی آئس کریم بنائی۔سوکھی مچھلی کے ساتھ اس آئس کریم میں مرچوں کا بھی ذائقہ شامل تھا۔ ٹاپیوا گزہا پیشے سے حیاتیات کے ماہر ہیں اورخود کو سائنسی ذہنیت کا 'فوڈی‘ یعنی کھانے کا شوقین کہتے ہیں۔   

آج کا دن

آج کا دن

لانگو پوائنٹ کی لڑائیلانگو پوائنٹ کی جنگ ایلن،امریکی اور کیوبک ملیشیا کے درمیان ہونے والی ایک لڑائی تھی جو 25ستمبر 1775ء کو شروع ہوئی۔امریکی انقلابی جنگ کے اوائل میں ہونے والی اس لڑائی کا مقصد مونٹریال سے برطانوی افواج کا کنٹرول ختم کر کے اس پر قبضہ کرنا تھا۔ایلن جسے احکامات دئیے گئے تھے کہ اپنی تعداد میں اضافہ کرے کیونکہ وہ ایک طویل عرصہ سے مونٹریال پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔جب وہ تقریباً110افراد کے ساتھ دریائے سینٹ لارنس کے جنوبی کنارے پر پہنچا تو اس نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور قبضہ کرنے کی کوشش کی۔میجر جان براؤن، جن کے بارے میں ایلن نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اضافی فورسز فراہم کرنے والے تھے، وہ وہاں نہیں پہنچے۔جیسا منصوبہ بنایا گیا تھااس پر عمل نہیں کیا گیا۔ سیکوئیا نیشنل پارک کا قیامسیکوئیا نیشنل پارک ایک امریکی پارک ہے جو جنوبی سیرا نیواڈا میں وسالیا، کیلیفورنیا کے مشرق میں واقع ہے۔ یہ پارک 25 ستمبر 1890ء کو 4لاکھ 4ہزار 64 ایکڑ جنگلاتی پہاڑی خطوں کی حفاظت کیلئے قائم کیا گیا تھا۔ تقریباً 13ہزار فٹ کی عمودی ریلیف کو گھیرے ہوئے یہ پارک ملحقہ ریاستہائے متحدہ میں سب سے اونچے مقام پر واقع ہے۔ ماؤنٹ وٹنی، سطح سمندر سے 14ہزار505 فٹ پر ہے۔ یہ پارک کنگز کینین نیشنل پارک کے جنوب میں ہے اور اس کے ساتھ ملحقہ ہے۔ دونوں پارکوں کا انتظام نیشنل پارک سروس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔یہ پارک اپنے بڑے سیکوئیا کے درختوں کیلئے قابل ذکر ہے، بشمول جنرل شرمین درخت جو حجم کے لحاظ سے زمین کا سب سے بڑا درخت ہے۔ٹرانس اٹلانٹک کا افتتاح ٹرانس اٹلانٹک ایک ٹیلی فون کیبل سسٹم تھا۔ اسے اوبان، اسکاٹ لینڈ اور کلیرن ویل نیو فاؤنڈ لینڈ کے درمیان بچھایا گیا تھا۔اس کا افتتاح 25 ستمبر 1956ء کو ہوا۔ یہ کیبل بیک وقت 35 ٹیلی فون کالز کرنے کے قابل تھی۔ 36 واں چینل 22 ٹیلی گراف لائنوں تک لے جانے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔یہ ٹیکنالوجی مواصلاتی نظام میں انقلاب کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کیبل سسٹم کی وجہ سے مواصلاتی نظام کے متعلق کئی مشکلات حل ہوئیں ۔پیسیفک ائیر لائن حادثہپیسیفک ساؤتھ ویسٹ فلائٹ نمبر182لاس اینجلس سے سین ڈیاگو کیلئے طے شدہ پرواز تھی۔25ستمبر1978ء کو پرواز سین ڈیاگو کیلیفورنیا کے اوپر ایک نجی طیارے سے ٹکرا گئی۔یہ پیسیفک ساؤتھ ویسٹ ائیر لائن کی تاریخ کا بدترین حادثہ تھا اور کیلیفوردنیا کا سب سے مہلک فضائی حادثہ تھا۔ دونوں طیاروں کا ٹکراؤ سین ڈیاگو کے علاقے نارتھ پارک میں ہوا۔ اس حادثے کے نتیجے میں 135افراد ہلاک ہوئے جبکہ زمین پر موجود 7 لوگ اس کا شکار ہوئے۔ نجی طیارے میں سوار دونوں افراد بھی ہلاک ہوئے جبکہ تقریباً 22گھروں کو شدید نقصان پہنچا۔ 

زمین کو دوسرا چاند ملنے والا ہے؟

زمین کو دوسرا چاند ملنے والا ہے؟

ان دنوں زمین کو ایک اور چاند ملنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ ''2024 پی ٹی 5‘‘ ہے جس کے 29ستمبر 2024 ء سے چند ماہ کیلئے زمین کے مدار میں آنے کی توقع کی جارہی ہے۔یہ دراصل ایک سیارچہ(Asteroid) ہے جو کچھ وقت کیلئے ہمارے سیارے کے گرد چکر لگائے گا اور اس کے بعد نظام شمسی میں واپس چلا جائے گا اور سورج کے گردگردش کرنے لگے گا۔منی مون: ''2024پی ٹی 5 ‘‘کیا ہے؟ ''2024پی ٹی 5‘‘زمین کے قریب ایک سیارچہ ہے۔ اس قسم کے سیارچوں کیلئے ''Near-Earth Asteroid‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ''2024پی ٹی 5‘‘کا قطر 11 میٹر ہے اور میڈرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فونیتے مارکوس کا کہنا ہے کہ زمین کے مدار میں آنے والا یہ سیارچہ ارجن ایسٹرائیڈ بیلٹ سے آیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سورج سے ڈیڑھ کروڑ کلو میٹر فاصلے پر موجود ایسٹرائیڈ بیلٹ کی گردش کا مدار زمین سے بہت مماثلت رکھتا ہے اور یہ زمین کے قریب پائے جانے والے سیارچوں اور دم دار ستاروں کے گروپ میں شامل ہے۔ اس کی موجودگی کا انکشاف جنوبی افریقہ میں زمین کے گرد سیارچوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے والے سائنسدانوں کی تحقیق سے ہوا جو کہ امریکن ایسٹرونومیکل سوسائٹی کے جرنل:Research Notes of the American Astronomical Societyمیں شائع ہوئی۔ اسے امریکی خلائی تحقیق کے ادارے' ناسا‘ کی فنڈنگ سے تحقیق کرنے والے سائنسدانوں نے رواں برس اگست میں دریافت کیا تھا اور اس کا نام ''2024 پی ٹی ایس 5‘‘ رکھا گیا۔ اس تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ سیارچہ 9 جنوری 2025ء کو ایک بار پھر زمین کے بہت قریب آئے گا۔محققین کے مطابق زمین باقاعدگی سے اس طرح کے قریبی عناصر (Near-Earth object) کو اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے جس سے وہ چھوٹے چاند بن جاتے ہیں۔منی مون: 2024پی ٹی 5‘‘ کہاں ہے؟دی سکائی لائیو کے مطابق ''2024پی ٹی 5‘‘ اس وقت شمالی نصف کرہ کے شمالی آسمان میں واقع مجمع النجوم ڈراکو میں موجود ہے۔ یہ زمین سے تقریباً 19 لاکھ میل (30 لاکھ کلو میٹر) دور ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس چھوٹے چاند کو دیکھ سکتے ہیں؟ ماہرین اس کا جواب'' نہیں‘‘ میں دیتے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ اسے ننگی آنکھوں سے یا عام دوربینوں سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا ۔ 30 انچ قطر کی بڑی دوربینوں کا استعمال کرتے ہوئے صرف ماہرین فلکیات ہی اسے دیکھ سکیں گے۔منی مون کہاں سے آیا؟زمین کے قریبی سیارچے (Near-Earth Asteroid) جن میں سے ''2004 پی ٹی 5‘‘ ایک ہے ‘ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مریخ اور مشتری کے مدار کے درمیان مرکزی اسٹرائیڈ بیلٹ سے آئے تھے۔ ''2024 پی ٹی 5‘‘ خاص طور پر ارجن ایسٹرائیڈ بیلٹ سے ہے ، جس کا سورج کے گرد زمین جیسا مدار ہے۔ یہ کافی سست رفتار ی سے زمین کے اتنے قریب پہنچ جائے گا کہ 29 ستمبر سے کچھ دیر کیلئے زمین کے مدار میں آ سکے گا جب زمین کی کشش ثقل اسے قریب کھینچ لے گی۔زمین کے دیگر چانداگرچہ زمین کے گرد مدار میں گردش کرنے والی صرف ایک ہی حقیقی چیز ہے جسے ہم اپنی آنکھ سے دیکھتے اور بخوبی جانتے ہیں لیکن ہمارے سیارے میں کچھ نیم مصنوعی سیارچے موجود ہیں جو اس مناسبت سے زمین کے چاند کہلا سکتے ہیں کہ زمین کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ ان میں سے ایک ''کامووالوا‘‘ (Kamo'oalewa)ہے، جو زمین کے ساتھ 1 سے 1 ریزونینس میں حرکت کرتا ہے، لہٰذا سورج کے گرد چکر لگانے کے باوجود زمین کے گرد بھی گھومتا دکھائی دیتا ہے۔ ''کامووالیوا‘‘ جسے ''2016 HO3‘‘ بھی کہا جاتا ہے ،ہوائی کی زبان میں اس کا مطلب ''متزلزل آسمانی شے‘‘ ہے ۔ یہ تقریباً 130 سے 330 فٹ (40 سے 100 میٹر) چوڑا ہے اور یہ 2016ء میں دریافت کیا گیا تھا۔  

آئینی بحران سنگین ہو گیا؟

آئینی بحران سنگین ہو گیا؟

پاکستان میں بڑا آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے جو آنے و الے دنوں میں سیاسی عدم استحکام میں اضافے کی خبر دے رہا ہے۔ کشیدگی صرف ریاست کے ستونوں کے درمیان ہی نہیں عدلیہ کے اندر بھی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔

وائس چانسلرز کی تقرریوں کا عمل ایشو کیوں بنا؟

وائس چانسلرز کی تقرریوں کا عمل ایشو کیوں بنا؟

سپریم کورٹ کی طرف سے مخصوص نشستوں کے تفصیلی فیصلہ کے بعد عدالت عظمیٰ اور حکومت ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں اور خاص طور پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے 8فروری کے انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دینے اور الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی کے سوال پر حکومت میں پریشانی ہے ۔

بلاول بھٹو کی سالگرہ اور سندھ کی سیاست

بلاول بھٹو کی سالگرہ اور سندھ کی سیاست

21 ستمبر کوسندھ سمیت ملک بھر میں پیپلز پارٹی نے اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سالگرہ منائی۔اللہ کے فضل سے انہوں نے زندگی کی 36 بہاریں دیکھ لی ہیں۔ بلاول ہاؤس کراچی میں تقریب ہوئی جہاں بلاول بھٹو نے آصفہ بھٹو اور فریال تالپور کے ہمراہ کیک کاٹا۔

وزیراعلیٰ اسمبلی کیوں نہیں آتے؟

وزیراعلیٰ اسمبلی کیوں نہیں آتے؟

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا لاہور جلسے میں تاخیر سے پہنچے‘ مگر ایسا کیوں ہوا؟ یہ سوال ہر کوئی پوچھ رہا ہے۔ جس بے دلی سے صوبائی وزراء اس جلسے میں شریک ہوئے اس پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ اسلام آباد جلسے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو احساس ہوجانا چاہئے تھا کہ مقررہ وقت میں جلسہ ختم نہ کرنے سے ان کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ،

سنڈے میگزین

دنیا بلاگز